غزواتِ نبوی اور انسانی اقدار

از: فاروق اعظم عاجز کھگڑیاوی

شریک دورہٴ حدیث دارالعلوم دیوبند

 

محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ سیرت کے پیرایہ میں اسلامی تعلیمات ایک جامع ومکمل دستورِ حیات ہیں۔ پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن سیرت سے انسانی معاشرہ میں ایک حیرت انگیز انقلاب اور انسانیت کی خشک کھیتیوں میں سرسبزی وشادابی آئی؛ لیکن آپ کے بے مثال اخلاق و کردار اور انسانیت نوازی انتہائی روشن ونمایاں ہے۔

یوں تو آپ پوری دنیا کے لئے سراپا رحمت بن کر آئے تھے لیکن جنگ جیسے نازک موڑ پر بھی بجائے اس کے کہ رحم وکرم۔ عدل وامن اور عفو درگذر کا دامن ہاتھ سے چھوٹتا، ایسے مواقع پر آپ کی یہ صفات اور زیادہ روشن ہوکر سامنے آتی ہیں۔

چناں چہ آپ کا جنگی رویہ اور قیدیوں کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا تھا اور آپ کے ذریعہ طے شدہ جنگی اصولوں میں انسانی جان کی کس قدر اہمیت لوگوں کے دلوں پر بٹھائی گئی، اور آج امن و مساوات کا ڈھنڈورہ پیٹنے والی مہذب ومتمدن قوم کا نظریہٴ جنگ کیا ہے؟ ان کے پاس چند دفعات قابلِ ستائش ہیں بھی تو کس کی دین ہیں؟ اور اس کے پس پردہ قوتِ تنفیذ کس قدر کارفرما ہے؟ ذیل کی سطور میں انھیں حقائق سے پردہ اٹھایا جائے گا۔

غزوہٴ نبوی یا فطری جنگ کا فلسفہ: قانونِ اسلام یا احکامِ الٰہی میں سے ہر حکم کی بنیادی طور پر دو جہتیں ہیں: مصالح کا حصول، مفاسد کا دفع۔ مثلاً کسب حلال کروتو چوری ڈکیتی اور حرام کاری سے بچوگے۔ چوری ڈکیتی میں گرفتار ہوئے تو مستحق سزا۔

جس طرح انسانی زندگی میں معمولی مرض کا قبل از وقت علاج کیا جاتاہے اور جب چھوٹی سی پھنسی جان لیوا پھوڑے کی صورت اختیار کرلیتی ہے تو اس حالت میں پورے جسم کو دائمی سکون پہنچانے کے لئے انسانی بدن کے اس حصہ پر نشتر لگانا ناگزیر ہوجاتا ہے، کبھی تو مریض خود یہ کام انجام دیتا ہے اور کبھی اس کی معاونت کے لیے پورے خاندان کی محنتیں اس کے ساتھ لگی ہوتی ہیں۔ انسانی معاشرہ کی مثال بھی جسم انسانی ہی کی سی ہے، اگر جسم صحت مند ہے تو سوچ، فکر اور عمل کی قوتیں بھی صحت مند رہیں گی ورنہ وہ چلتا پھرتا ہڈیوں کا ڈھانچہ کہلائے گا۔

انسان کی معاشرتی زندگی میں اس کے جان ومال، عزت وآبرو، ایمان و اعمال وغیرہ کو جو چیز بھی آزمائش وخطرے میں ڈالے وہ فتنہ ہے اور اسی زندگی میں جو شئے ناہمواری پیدا کردے وہ فساد ہے، ان دونوں کا سدّباب ایک ایسا انسانی فریضہ ہے جن کا کوئی انکار نہیں کرسکتا، اور اس کے لیے تگ و دو اور طاقت و قوت کا استعمال بھی عین فطرت کے مطابق ہے۔ قرآن کہتا ہے: فتنہ قتل سے بڑھ کر ہے۔ اس لیے کہ کسی کا قتل اس کی ذات سے متعلق ہوتا ہے لیکن فتنہ کا تعلق اجتماعیت سے ہے اور پورے معاشرہ کے خطرے میں پڑجانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

غور و خوض کرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ طاقت وہتھیار کے صحیح استعمال پر اپنی انسانی زندگی کا مدار ہے۔ انسان اگر اپنی روزمرہ کی زندگی کا بہ نظر غائر مطالعہ کرے تو اس کا زاویہٴ فکر اسی نقطہ پر پہنچے گا کہ ہر مثبت شے اپنے بالمقابل منفی شے سے آمادئہ جنگ اور برسرِ پیکار ہے، جیسے دوا کا استعمال جسمانی بیماریوں کے خلاف ایک جنگ ہے۔ اسی طرح تہذیب وتمدن کی دنیا میں جہالت وناشائستگی کا قلع قمع کرنے کے لیے تعلیم و تربیت سب سے بڑا ہتھیار ہے۔

اب جو جنگ فطرت کے مطابق انسانی معاشرہ کے جانی ومالی اور اخلاقی تحفظ کے لیے فتنہٴ وفساد کی سرکوبی کرتی ہے اس کو فطری جنگ کہا جائے گا، اوراس کو جہاد اسلامی اور غزوئہ نبوی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ تعلیمات نبوی سے ملنے والے اس اصول کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ فطری جنگ کا اصل ہدف کیا ہے؟ اس کے مقاصد دولت و اقتدار کا حصول، جذبہٴ انتقام کی تسکین، یا نفسانی خواہشات کی تکمیل اور نسل کشی نہیں بلکہ اس کا ہدف اصلی صرف اور صرف انسانیت کی سربلندی، آدمیت کا قیام اور اخلاقی قدروں کی حمایت ہے اورانسان کو اس کا پیدائشی حق و فرض ”جیو اور جینے دو“ کو ٹھوس کرکے اس میں خوشگواری پیدا کرنا ہے۔ درحقیقت اسلام کا پورا نظام ہی انسانی زندگی کی بقا اور اس کی شادابی کے لیے ہے۔

غیرفطری جنگ کی حقیقت: اسی کے ساتھ غیرفطری جنگ کا منظرنامہ بھی دیکھتے جائیے، اس جنگ میں بہیمیت کا انتہائی گہرا رنگ ہوتا ہے، انسانی قدریں مفقود ہوتی ہیں اور حرص وہوس، نفسانیت اور حصول اقتدار ہی کا غلبہ ہوتا ہے، پھر عورت کیا، بچے کیا، بوڑھے، معذور اور بیمار کیا ہر ایک کو تختہ مشق بنایا جاتا ہے، ہر طرف خون خرابہ کا دور دورہ ہوتا ہے، وقت کی کوئی قید نہ حملوں کا کوئی اصول وضابطہ اور نہ ہی کسی مقدس مقام کا کوئی احترام۔ انھیں کی بے ضابطگی کو قرآن نے انتہائی مدلل انداز میں اس طرح ذکر کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر مالک ارض وسما اور رب حکیم فطری جنگوں کے ذریعہ فسادیوں اور شرانگیزوں کوبیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنے کا انتظام نہ فرماتے تو نہ کوئی دیروکلیسہ، چرچ وگرجا گھر، اور نہ ہی کوئی عبادت گاہ و سجدہ گاہ محفوظ رہ پاتی اور یہ شری لوگ زمین کی خوشگواریوں کو خاک میں ملاکر فتنہ وفساد سے اسے آلودہ کرڈالتے۔

عہد نبوی سے قبل فطرت کے خلاف ہونے والی جنگوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ عرب کی غیرمتمدن قوم کی جنگ، روم و ایران کی متمدن قوموں کی جنگ۔

غیرمتمدن قوم کا طرز جنگ: اس قوم کے نزدیک انسانی جان کی کوئی قدر و اہمیت نہ تھی، اور جنگ ان کا قومی پیشہ بن گیا تھا، ادنیٰ ادنیٰ بات پر شمشیریں بے نیام ہوجاتیں ، ایک پشت سے دوسری پشت کی طرف یہ جنگیں منتقل ہوتی رہتی تھیں، انتقامی جذبہ کی تسکین اور حرص وہوس کی تکمیل کے لیے تمام غیر انسانی سلوک روا رکھے جاتے بدعہدی، لاشوں کی بے حرمتی، ناک کان کاٹ کر اس کا ہار پہننا، دشمنوں کی کھوپڑیوں میں شراب پینے کی نذر ماننا، ان کو نذر آتش کردینا، قیدیوں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کرنا اور قتل کرادینا بلکہ انسانیت کے تمام حدود کو پار کرکے سنگدلی و درندگی کے اس چوراہے پر پہنچ گئے تھے کہ انسانی کلیجے چباڈالتے تھے اوراس سب پر طرہ یہ کہ اس کو فخر وشجاعت کا ذریعہ سمجھتے۔ اس طرح کی خونی داستان سے دور جاہلیت کی پوری شاعری بھری پڑی ہے جو اہل عرب کے نزدیک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔

متمدن قوم کا نظریہٴ جنگ: اس طرح کی صورت حال تو عرب جیسے اجڈ اور ان پڑھ قوم کی تھی لیکن جو قوم مہذب ومتمدن کہلاتی تھی اس کا جنگی رویہ بھی ان سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھا، ان کے شب و روز بھی ظلم و بربریت کی خونی داستان سے رنگین تھے، جنگ کے حوالہ سے کوئی اصول وقانون نہ تھا، زمین کے جس حصہ پر وہ چڑھ آئے وہاں قیامت صغریٰ برپا کردیتے، ان کے سپہ سالار کی حیثیت حضرت اسرافیل کی سی ہوتی اور اس کا حکم ”صور“ ہوتا جنگ کا بگل بجتے ہی یکساں طور پر بوڑھوں، بچوں ، عورتوں، بیماروں، معذوروں، راہب و گوشہ نشینوں کو، فصلوں، باغات اور آبادیوں کو تہس نہس اور تہہ وبالا کردیا جاتا۔ ان کے اندر مذہبی عناد بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، متبرک مقامات کی بے حرمتی بھی جنگ کا ایک حصہ تھا، عیسائی، یہودی اور مجوسی میں سے جب بھی کوئی ایک دوسرے پر غالب آتا تو اس کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکتا، ہزاروں لاکھوں جانیں ضائع ہوجاتیں، سفراء کوبھی نہیں بخشا جاتا، بدعہدی بھی ایک عام چیز تھی؛ بلکہ نوشیرواں بادشاہ جس کی عدالت مشہور تھی اس کا دامن بھی انسانی خون سے رنگین ہوئے بغیر نہ رہا۔ چنانچہ ۶۴۰/ میں اس نے شام کے دارالحکومت پر قبضہ کیا تو شہریوں کے قتل عام اور عمارتوں کے مسمار کرنے کا حکم دیا اور پوری آبادی کو قید کرکے خاکستر کردیا۔

اس مہذب قوم کے وحشیانہ کھیل اور خون تفریح کا سامان جنگی قیدی ہوا کرتے تھے، پہلے تو ان قیدیوں کو زنجیروں میں جکڑدیتے پھر اذیت ناک سلوک کرکے موت کے گھاٹ اتاردیا جاتا۔

یہی وجہ ہے کہ ۶۱۱/ میں جب ہرقل کی بیوی کے جنازے میں جاتے ہوئے ایک لونڈی نے زمین پر تھوک دیا تو اسے اس ناقابل معافی گستاخی میں اپنی جان دے کر اس کی قیمت چکانی پڑی، اسی طرح جب قیصر روم شکست کھاکر ایران کا قیدی بنا تو اس کی پوری زندگی غلامی میں گزری اور مرنے کے بعد اس کی کھال کھینچواکر بھس بھروادیاگیا۔ (اخلاق رسول۲/۸۲)۔

اور لطیفہ کی بات تو یہ ہے کہ یہ سارا ڈرامہ کسی اہم مقصد کے تحت اسٹیج نہیں دیا جاتا بلکہ صرف شہرت و ناموری کے حصول اور شاہانہ ہیبت و جلال کے اظہار کے لیے ہوتا تھا۔

بعثت نبوی اور آپ کی صفت رحمت: اسلامی آئین ہی کا دوسرا نام قانونِ الٰہی ہے اور اسی قانون کو قرآنی شکل میں رب کریم نے ۲۳/ سالہ عرصہ میں اپنے انتہائی برگزیدہ بندہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا، پھر اس معلّم کائنات نے اپنے تمام تر فضائل وکمالات کے ذریعہ خدا کی زمین پر اس کو نافذ کیا، اور بھٹکتی انسانیت کو صراط مستقیم پر گامزن کیا، دنیا کی تنگیوں سے نکال کر آخرت کی وسعتوں میں پہنچایا اورانسانی قدروں کی پامالی پر روک لگائی، زندگیوں میں اعتدال پیدا کیا، دنیا کو اس کے پیدا کرنے والے کی معرفت اور اس کی اطاعت کے سامنے سرتسلیم خم کرنے میں ابدی کامرانی کا مژدہ سنایا۔

چنانچہ فرمایا میں صرف عربوں کے لیے خدا کا نبی نہیں ہوں بلکہ انسانیت عامہ کے تمام افراد کے لیے نبی ہوں، میں تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا گیاہوں، جو نصب العین میں لایا ہوں اس سے بہتر تمہارے لیے کوئی نہیں لایا۔ بس شرط یہ ہے کہ ”لا الٰہ الا اللہ“ کہہ لو کامیاب ہوجاؤگے۔

دربار نبوی میں انسانی جان کی پاسداری: یوں تو آپ کی زندگی مکمل دستور حیات ہے زندگی کا کوئی ایساگوشہ نہیں ہے جس کو آپ نے تشنہ رکھا ہو؛ تاہم تاریخ رسالت کا سب سے روشن باب آدمیت کا قیام ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے: ”تمام انسان انسانی حقوق میں برابر ہیں بشرطیکہ قانون کے پابند ہوں“۔ عدل کا مطلب یہی ہے کہ ہر شخص کو اس کا پورا پورا حق ملے اور اس میں رخنہ ڈالنے والوں کو سخت سزا دی جائے۔

قرآن میں بے شمار جگہوں پر عدل کا حکم اور سینکڑوں مقامات پر ظلم و سرکشی کی پرزور انداز میں مذمت کی گئی ہے اوراس پر کڑی ضرب لگائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلا امتیاز مذہب اور قبائل مشرکین اور یہود ونصاریٰ آپ کے پاس اپنی شکایات لاتے، فیصلہ چاہتے اور انصاف لے کر واپس ہوتے، حق والوں کو حق ملتا اور مجرموں کو سزا۔

اسلامی جنگ کے اصول وضوابط: جنگ کے سلسلے میں حضور نے اولاً گذشتہ جنگی طریقوں کی اصلاح کی، اس کے بعد اس کے لیے ایسے پاکیزہ اصول طے کیے کہ یہی جنگ جس کا نام سنتے ہی روح کانپ اٹھتی تھی اور مفتوح قوم کھلی آنکھوں موت کا مشاہدہ کرنے لگتی تھی، انسانیت کی بے راہ روی اور اخلاقی، جانی اور مادی تحفظ کا ذریعہ بن گئی، اولاً صلح وامن سے کام لینے کی تاکید کی گئی اور انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں سخت شرائط کے ساتھ تلوار اٹھانے کی اجازت دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھی مسلسل تیرہ سال ظلم و ستم کی چکی میں پستے رہے اور بغیر کسی جرم وخطا کے ان کو ان کے گھروں سے نکال کر جلاوطن کردیاگیا، لیکن جلاوطنی کے بعد بھی تعاقب جاری رہا تو انھیں جنگ کی اجازت دی گئی، لیکن اجازت اس طرح کہ امیر جیش کے حکم کے بغیر صف سے نکلنا بھی گوارہ نہ تھا، ناحق خون بہانے کی قطعاً اجازت نہیں دی گئی؛ بلکہ جو بالمقابل ہے اسی سے لڑو، لاشوں کو مثلہ نہ کرو، شب خون نہ مارو، اذیت دے کر قتل نہ کرو، راہبوں، گوشہ نشینوں، معذوروں، عورتوں، بچوں بوڑھوں کو نہ چھیڑو، عمارت نہ ڈھاؤ، پھلدار درخت نہ کاٹو، جو لوگ تمہارے قیدی بن جائیں ان سے حسن سلوک کا معاملہ کرو، ان کو کھانا کھلاؤ اور لباس کا خیال رکھو۔ قرآن نے قیدیوں کے کھانا کھلانے کو بہترین عمل قرار دیا ہے۔ پھر ارشاد ہوا آبادی کو نہ اجاڑو یہاں تک کہ فخر و غرور سے پُرنعرے بازی سے بھی حضور نے منع فرمایا۔

ان اصول اور طریقہ کار کو آپ اور آپ کے جاں نثار ساتھیوں نے عملی جامہ پہناکر غیرمسلم قوم کے ظالمانہ جنگی طریقوں کی تمام راہیں مسدود کردیں، ان اصول و ضوابط سے انسانی جان کی غیرمعمولی قدر واہمیت اور اس کے احترام کا پتہ چلتا ہے۔

غزوات نبوی اور اسیرانِ جنگ: یوں تو آپ کی ذات انسانیت کے لیے سراپا رحمت اور مردوں کے مسیحا تھی لیکن آ پ کی انسانیت نوازی جنگ جیسے نازک موڑ پر بھی نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے بلکہ ایک قدم آگے ہی۔

غزوات نبوی کی تو ایک طویل فہرست ہے لیکن جنگی قیدیوں کے حوالہ سے یہاں صرف دو غزوے ہی کا تذکرہ کیا جائے گا جو اس سلسلے میں خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ غزوئہ بدر اور فتح مکہ۔ اس لیے کہ یہ قیدی ہی نہیں بلکہ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے حضور اور اُن کے ساتھیوں کو پل بناکر تیرہ چودہ سال کی طویل مدت تک ظلم و تعدی کے تمام سرحدوں کو پاکر کرکے وطن سے بے وطن کردیا، جب یہ پردیسی اجنبی شہر میں اطمینان کی سانس لینے لگے تو اس کو بھی قریش قوم ہضم نہ کرسکی اور مدینہ پر بھی کاٹ کھانے کے لیے مارکھانے کے لیے چڑھ آئی لیکن رب برحق نے انھیں اوندھے منہ گراکر انتہائی شرمناک شکست سے دوچار کیااور سترقیدہوکر مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔

غزوہٴ بدر! لیکن قربان جائیے اس محسنِ انسانیت پر جس نے ان کی دوہری دشمنی کے باوجود ان کے ساتھ اچھے سلوک کی تلقین کرکے اپنے مختلف ساتھیوں میں تقسیم کردیا، تاریخ شاہد ہے کہ نبی کے ان دیوانوں نے مہمانوں کی طرح ان قیدیوں کی دیکھ بھال کی، خود کھجور پر اکتفا کرکے انھیں روٹی کھلائی، ایک قیدی ”ابوعزیز“ کا بیان طبری نقل کرتے ہیں، میں جن انصاریوں کے پاس قید تھا جب وہ لوگ صبح و شام میرے سامنے کھانا لاتے تو روٹی میرے سامنے رکھ دیتے، خود کھجوریں اٹھالیتے مجھ کو شرم آتی اور میں روٹی ان کے ہاتھ میں دے دیتا لیکن وہ ہاتھ بھی نہ لگاتے اور مجھ کو واپس کردیتے۔

جب یہ قیدی مسجد میں لاکر باندھے گئے اور بندھے قیدی رات کو بندش کی تکلیف سے کراہ رہے تھے جس کی وجہ سے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند اُڑگئی اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم پوری رات کروٹیں بدل رہے تھے، صحابہ نے یہ سمجھ کر کہ یہ بے چینی چچا کی وجہ سے ہورہی ہے عباس کی بندش ڈھیلی کردی لیکن اس محسنِ اعظم نے تمام قیدیوں کے لیے یہ حکم جاری کیا اس لیے کہ درحقیقت اس کی بے تابی کے پس پردہ خونی رشتہ نہیں بلکہ انسانی ناطہ کارفرما تھا۔

ایک قیدی سہیل بن عمرو نہایت فصیح و بلیغ شخص تھا حضور کے خلاف ہمہ وقت زہر افشانی کرتا رہتا، حضرت عمر نے ان کے دانت اکھڑوادینے کا مشورہ دیا حضور نے سختی سے منع فرمایا، ان قیدیوں کے گندے کپڑوں کے بدلنے کا حکم دیا۔ جب ان اسیروں کے متعلق مشورہ ہوا تو حضرت عمر نے تمام کو تہہ تیغ اور عبداللہ بن رواحہ نے نذرآتش کردینے کا مشورہ دیا اور حضرت صدیق نے فدیہ لے کر رہا کردینے کی رائے دی، محسنِ انسانیت نے آخری مشورہ پر فیصلہ فرمایا لیکن رحم وکرم کی بارش یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اس سراپا رحمت نے فدیہ میں بھی ان قیدیوں کی حیثیتوں کا مکمل لحاظ رکھا، چنانچہ جو صاحب ثروت تھے ان کا فدیہ مال طے ہوا، جو صاحب علم وفن تھے ان کی رہائی کا معاوضہ لکھانے پڑھانے کا کام سپرد ہوا اور جو اس قابل بھی نہ تھے اور بالکل تہی دست تھے ان کو عفو و درگزر کا تحفہ دے کر ویسے ہی رہا کردیا۔

فتح مکہ: فتح مکہ انسانی اقدار کی حقیقی تاریخ کو ظاہر کرتا ہے، یہ دن تو انتقام کی پیاس بجھانے کا دن تھا، لیکن اس معلم کائنات  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانشینوں کی ایسی تربیت کی تھی کہ انھوں نے نقشہ عالم پر آپ کی رحمت عالم ہونے کا ایسا اثر چھوڑا کہ چشم فلک نے دیکھ لیا کہ انسانیت کے سب سے بڑے محسن کے ایوان حق و انصاف میں انتقام پر انسانیت کا غلبہ ہے۔

جبکہ اس موقع پر اس عظیم فاتح کے ساتھ عظیم لشکر ہے، اسلحے ہیں، مکمل طاقت ہے اور اتنا ہی نہیں بلکہ اس کے سامنے ماضی کے دلخراش واقعات بھی ہیں، ’شعب ابی طالب“ کی تین سالہ قید وبند، آہ و بکا، بھوک و پیاس، اضطراب و بے چینی اور بے پناہ مصائب و آلام کی درد انگیز روداد بھی، تپتی ہوئی چٹانیں، شعلے اگلتے سنگریزے، کھجور کے کھردرے تنے، تانت کی رسیاں، راہ کے کانٹے، کوڑے کرکٹ، اونٹ کی اوجھ، گلے کے پھندے، چٹائیوں کے رول اور دھوئیں سب کے سب آج ایذارسانوں کے خلاف انتقام کے شرارے کو ہوا دے رہے تھے۔ انتقام انتقام!! کی صدائے باز گشت سے پوری فضا گونج رہی تھی، گردوپیش بھی اپنے زبان حال سے ہم نوائی کررہے تھے دشمنوں کو ہست سے نیست کرنے کا اس سے شاندار و خوشگوار کون سا موقع ہوسکتا تھا کہ دشمنوں کو خود اپنی تباہی کا یقین ہوگیا تھا اُس کے باوجود محسنِ انسانیت اور مُردوں کے مسیح  صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہوکر بقائے انسانی کے اجزائے ترکیبی (امن ومساوات اور آزادی) کا اس طرح اعلان کرتے ہیں کہ انسانو! مکہ ہمیشہ سے دارالامان ہے کسی باخدا انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ آج کے بعد اس سرزمین میں خون بہائے اور اُس کی سرسبزی و شادابی کو نقصان پہنچائے آج جاہلیت کے خاندانی اور نسلی غرور کا خاتمہ کردیاگیا ہے تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اورآدم مٹی سے پیدا ہوئے ہیں۔ جاؤ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجاؤ اب تم سب کے سب آزاد ہو!!!

ظلم و تعدی اور خون خرابے کے بجائے آج عفوودرگذر کا سیلاب آگیاتھا پھر کیا ہوا اس عظیم فاتح کی جوان بیٹی زینب کا قاتل ہبار ابن الاسود محبوب چچا ”حمزہ“ کے خون سے ہولی کھیلنے والا حبشی اور اسی حمزہ کے کلیجے کو چبانے والی ہندہ اور دشمن اسلام ابوجہل کا بیٹا دشمن پیغمبر عکرمہ سب کو عفووکرم کا بے مثال اور عظیم تحفہ ملتا ہے عبداللہ ابن سرح، سارہ، کعب بن زہیر جیسے جانی دشمن کو بھی معافی کا پروانہ ملتا ہے، اتنی بڑی فتح کے موقع پر صرف حویرث بن نقیہ، عبدالعزی ابن خطل اور مقیس ابن صبابہ کو قتل کیاگیا وہ بھی قصاصاً نہ کہ فتح وظفر اور طاقت و قوت کے غرور پر۔

وہی عرب قوم جس کی بداطواری و بدکرداری مشہور عالم تھی جس کی بے راہ روی کی خونی داستان سے آج بھی انسانی دُنیا کانپ اُٹھتی ہے؛ لیکن یہی قوم جب نبی رحمت، سراپاحلم و عفو اور انسانیت کے عظیم محسن کے آغوشِ تربیت میں آتی ہے تو کل ۸/ سال کی مدت میں اُس کی زندگی میں ایک حیرت انگیز انقلاب برپا ہوگیا باوجود تمام تر طاقت و قوت کے اپنے نبی کے حکم سے سرِمو انحراف گوارہ نہ تھا، نبی کے ایک اشارے پر جان چھڑکنے کے لیے ہمہ وقت یہ قوم تیار و بیدار رہتی اور اُس کی زندگی کا ایک سانس بھی طریقہٴ نبوی سے ہٹ کر نہیں نکلتا۔

غزوات نبوی اور موجودہ جنگی صورتِ حال: اب ہمیں دورِ حاضر کے تناظر میں غزوئہ نبوی اور غیرفطری جنگ کا تجزیہ کرنا ہوگا کہ اسلامی جنگوں کے اخلاقی دنیا پر کیا اثرات پڑے، اُس کے برخلاف دوسری جنگوں میں انسانی دنیا کی اخلاقی، مادی اور جانی اقدار میں کتنا بڑا بھونچال آیا۔

مثال کے طور پر پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں انسانیت سوزی کی دل دوز تاریخ اور ۱۱/ستمبر ۲۰۰۱/ کے بعد افغانستان اور عراق میں انسانی قدروں کی زبردست پامالی اور اُن کی کھوپڑیوں سے تیسری جنگ عظیم کے اُٹھتے شعلے۔

درحقیقت یہ جنگ نہیں بلکہ ظلم وعدوان اور انسانیت سوزی کی آخری شکل ہے، جس کی مختصر روداد یہ ہے کہ دونوں عظیم جنگوں میں ایک محتاط اندازے کے مطابق چارکروڑ انسانی جانیں تلف ہوئیں، اسلام کے خلاف دہشت گردی کے عنوان سے امن و مساوات اور انسانی قدروں کی دھجیاں اڑانے والوں نے افغانستان کے لاکھوں بے گناہ بچوں بوڑھوں اور عورتوں کو بم و بارود کے نذر کردیا اور ایک خوشگوار اور امن وامان کا گہوارہ ملک کو راکھ کی ڈھیر میں تبدیل کردیا، اُس کے بعد بھی جب پیاس نہ بجھی تو انسان نما بھیڑیوں کی للچاتی نگاہیں عراق کی طرف اُٹھیں اور وہاں کے تقریباً ۷/لاکھ بے قصور انسانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھائی، ان درندوں نے ”ابوغریب“ جیل میں انسانی قدروں کا جس طرح مذاق اُڑایا اور اُڑا رہے ہیں کہ اُسے حیوانیت، سفاکیت اور شیطنت کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے؟ ان کے سیاہ کرتوت کی تعبیر کے لیے لغات کے ذخائر میں کوئی لفظ بھی نہیں۔ ان نفس پرستوں نے عین تہوار کے دن ایک ملک کے صدر کو اُسی کی زمین پر اذیت ناک موت کا ایسا تحفہ دیاکہ انسانی اقدار کے چیتھڑے اُڑگئے، ہوس کی پجاری قوم نے ایک شخص، ایک ملک یا ایک مذہب پر تیشہ زنی نہیں کی بلکہ پوری اخلاقی دُنیا پر بزدلانہ حملہ کیا۔ اُس کے برعکس غزواتِ نبوی کا بھی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ ایک فطری جنگ ہے اور اُس کے اندر ظلم وزیادتی سے پاک غیرجانبدارانہ حصول اور عدل و مساوات کی جو سچی تصویریں ملتی ہیں جن سے نہ صرف یہ کہ گذشتہ قوم کی جنگی بے راہ روی ختم ہوئی بلکہ انسانی قدروں کو ایک نئی روح اور دائمی زندگی مل گئی۔

چناں چہ ایک تحقیق کے مطابق عہدِ نبوی کے تمام غزوات میں کل ۶۵۶۴ قیدی اور ۷۵۹ لوگ مقتول ہوئے اور مسلمانوں میں ۲۵۹ لوگ شہید اور ایک بزرگ قید ہوئے اور تاریخ گواہ ہے کہ دشمنوں کے ان قیدیوں میں سے ۶۳۴۸ قیدیوں کو اس نبی رحمت  صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوئہ حنین کے بعد بغیر کسی شرط کے رہا کردیا، صرف ایک شخص قصاصاً قتل ہوا پھر ۲۱۵ قیدیوں میں ۷۰ کو بدر میں فدیہ لے کر رہا کردیاگیا اُس کے بعد جبالِ تنعیم پر مسلمانوں پر حملہ کرتے ہوئے ۸۰ لوگ قید ہوئے اُن کو بھی اسی طرح رہائی ملی۔

واقعات وقرائن اور آپ کی ذات سے یقین ہے کہ بقیہ قیدی بھی رہا اور آزاد ہوگئے ہوں گے۔ کیا اُس وقت کے کسی قوم کے جنگی اُصولوں میں قیدیوں کی سزا کا غلامی اور قتل کے سوا کوئی تیسرا رُخ تھا؟ جہاں تک غلام اور لونڈی بنانے کی بات ہے تو اُس کے رموزو اسرار کو بھی اچھی طرح سمجھنا چاہئے کہ پہلے قیدیوں کے تبادلہ کا کوئی تصور نہ تھا اس لیے اضطراراً اسلام نے غلامی کا حکم نہیں بلکہ اُس کی اجازت دی اوراسلام میں چونکہ عورتوں سے قتال جائز نہیں اور جنگوں میں بسا اوقات مرد سب کے سب مقتول ہوجاتے تھے اور اُن کی عورتیں بے سہارا اور بے یارومددگار ہوجاتی تھیں اس لئے اُن کے حق میں اس سے زیادہ مناسب کوئی طریقہ نہ تھا کہ امیراُن عورتوں کو لشکر کے ذمہ لگادے جو اُن کی کفالت کرسکے۔

اگر اسلام کا یہی نظریہ ہوتا تو پھر جگہ جگہ غلام لونڈی کی آزادی و رہائی پر بے شمار فضائل کی خوشخبری اور اجرعظیم کا وعدہ نہ کیا جاتا اورنہ ہی اُن سے حسن سلوک کی تاکید اور غلطیوں کے نظر انداز کا حکم دیا جاتا لیکن اسلام نے مختلف حربوں سے ان کی آزادی کا سامان مہیا کیا اور معاشرہ میں اُن کو ایک مقام عطا کیا۔ یہ وہ اسباب و عوامل ہیں جن سے پوری طرح یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ تعلیم نبوی نے غلامی کا تصور نہیں بلکہ درحقیقت اُس کو ختم کیا لیکن یکبارگی نہیں بلکہ اپنے مزاج کے مطابق بتدریج یہ کام کیا۔ ایسے اشخاص کی ایک طویل فہرست ہے جو آزاد ہوکر بعد میں بڑے بڑے مناصب پر فائز ہوئے اور ایک دُنیا اُن سے سیراب ہوئی۔

اس قدر ٹھوس اور مکمل قوتِ نافذہ رکھنے والا اس دنیا کا کوئی قانون ہوسکتا ہے؟ اسلام کے علاوہ دوسرے ایوانوں میں عمل و مساوات اور انسانی اقدار کے اُوجھل نقوش ملتے بھی ہیں تو وہ حیاتِ محمدی ہی سے مستعار لئے گئے ہیں لیکن عملی میدان میں پھر بھی وہ اپاہج ہی ہیں اور اُن کے تنفیذی قوت کی سوئی صفر پر ․․․․ سیرت محمدی  صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ وہ روشن حقائق ہیں جو متعصب قوم اور امن و مساوات کے نام پر سفاکیت کے علمبرداروں کو دعوت فکر دیتے ہیں۔

مراجع:

(۱) اصح السیر : حکیم مولانا ابوالبرکات عبدالرؤف صاحب دانا پوری               (۲) سیرت المصطفیٰ :مولانا ادریس صاحب کاندھلوی

(۳)سیرت نمبر (ماہنامہ ”نقوش“ لاہور)                                                  (۴) رحمت للعالمین : قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری

(۵) سیرت النبی : علامہ شبلی و علامہ سید سلیمان ندوی                                (۶) اخلاق رسول : مولانا اخلاق حسین قاسمی صاحب دہلی

               ودیگراخبار و رسائل وغیرہ۔

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ5، جلد: 91 ‏، ربیع الثانی1428 ہجری مطابق مئی2007ء